جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست! - از غلام اکبر (روزنامہ نوائے وقت)

بال جبریل میں ابلیس نے قادرِ مطلق کو جو عرضداشت پیش کی، اس کا آخری شعر یہ ہے۔

’’ جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہ افلاک‘‘

اس شعر کی عمر ایک صدی کے لگ بھگ ہوگی۔ ایک صدی قبل کی دنیا آج کی دنیا سے یقینا مختلف تھی لیکن جمہور وہی تھے جو آج ہیں، ابلیس بھی وہی تھا جو آج ہے اور سیاست بھی وہی تھی جو آج ہے۔ جمہور کی حکمرانی کو تب بھی جمہوریت کہتے تھے اور آج بھی جمہوریت کہتے ہیں۔ جمہوریت کی ثناء خوانی تب بھی ہوتی تھی اور آج بھی ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ پڑا ہے کہ آج کا انسان ’’جمہوریت‘‘ کے تجربے سے زیادہ وسیع پیمانے پر گزر چکا ہے۔ تب جمہوریت صرف امریکہ اور یورپ کے کچھ ممالک تک محدود تھی۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے تب ابلیس کی زبان سے کہلوا دیا تھا کہ ’’روئے زمین پر سیاست کی باگ ڈور جمہور میں موجود ابلیسوں یعنی شیطانوں نے سنبھال لی ہے، اس لئے اب میرا آسمانوں سے نیچے جانا یعنی روئے زمین پر موجود ہونا ضروری نہیں۔ ‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ مملکتِ خداداد یعنی اسلامی جمہوریہ ء پاکستان کا سارا المیہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے اس ایک شعر سے آشکار ہوجاتا ہے جو ایک صدی قبل کہا گیا تھا۔ یعنی اس وقت کہا گیا تھا جب پاکستان کا نام تک کسی کے ذہن میں نہیں تھا اور کسی کے خواب وخیال میں یہ بات نہیں تھی کہ اِس نام کا کوئی ملک چند دہائیوں کے اندر عالمِ وجودمیں آنے والا ہے۔

میں اسے صرف پاکستان کا ہی المیہ نہیں، پورے عالمِ اسلام، پوری امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا المیہ سمجھتا ہوں کہ جو نظام حاکمیتِ خداوندی کے اعلیٰ و ارفع تصور سے شروع ہوا تھا اور جس نظام کی بنیادیں ریاستِ مدینہ کے بانی و معمار یعنی پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے رکھی تھی وہ نظام پہلے زمانہ ء قیصر و کسریٰ جیسی ملوکیتوں میں ڈھلا اور پھر صدیوں کا سفر طے کرنے کے بعد پہلے غلامی کے قعرِ مذّلت میں گرا اور پھر دورِ حاضر میں پہنچ کر یا تو شخصی حکمرانیوں کا یا پھر جمہوریت کے جھنڈے تلے جمہور میں موجود شیاطین کے اجتماعی اقتدار کا روپ دھار چکا ہے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ایک صدی قبل کہی تھی۔ہم جس نظام کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں وہ دراصل معاشرے میں موجود ایسے افراد یا ایسے خاندانوں کو حقِ حاکمیت دینے کا نظام ہے۔ جو یا تو موروثی طور پر یا پھر ناجائز ہتھکنڈوں کے ذریعے مملکت کے وسائل پر قابض ہوتے ہیں۔ اِس نظام کو جمہوریت کا نام صرف اس بنیاد پر دیا جاتا ہے کہ اس میں حقِ حاکمیت کا فیصلہ ایک ایسے انتخابی عمل کے ذریعے ہوتا ہے جس میں عوام چار پانچ برس میں صرف ایک دن اپنے آپ کو ’’ با اختیار ‘‘ سمجھتے ہیں۔ یعنی وہ دن جب وہ اپنا ’’ قیمتی‘‘ ووٹ ڈالنے کیلئے نکلتے ہیں۔ یہ ’’ قیمتی ‘‘ ووٹ کبھی وہ علاقے کے ایک امیر ایک چوہدری اور ایک وڈیرے کے حق میں ڈالتے ہیں اور کبھی دوسرے امیر، دوسرے چوہدری اور دوسرے وڈیرے کے حق میں۔

ستم ظریفی کی بات یہاں یہ ہے کہ یہ نظام ’’ جمہور ‘‘ یعنی عوام کو اپنا لیڈر اور اپنا حاکم خود منتخب کرنے کا بھی حق نہیں دیتا۔ یہ حق بھی وہ اپنے علاقے کے امیر سردار چوہدری خان یا وڈیرے کو دے دیتے ہیں جو اسمبلی میں جاکر اس حق کی پوری پوری قیمت وصول کرتا ہے۔

اس نظام کو ڈھائی سو برس قبل ہی والیٹئر اوررُوسو دونوں نے منتخب امراء شاہی (Elected Oligarchy)کا نام دے دیا تھا۔ رُوسو نے اپنی تصنیف New Social Contractیعنی ’’ نیا عمرانی معاہدہ ‘‘ میں لکھا تھا۔ ’’ جس نظام میں جمہور کو احساس حاکمیت سے سرشار ہونے کا موقع صرف چند ساعتوں کیلئے ووٹ ڈالنے والے دن ملے، اور دوبارہ اِس احساس سے روشناس ہونے کیلئے انہیں اگلے انتخابات کا طویل انتظار رعایا کے طور پر کرنا پڑے، اس نظام کو جمہوریت یا عوام کی حکمرانی کا نام دینا آدمیت کی تذلیل اور انسانی شعور کی توہین ہے۔ جمہوریت کا مطلب میرے نزدیک اِس کے سوا اور کوئی نہیں کہ ہر گلی، ہر محلے اور ہر قصبے یا شہر کے عوام اپنے معاملات زندگی چلانے کا اختیار خود اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہوں اور یہ صرف اِسی صورت میں ممکن ہے کہ اقتدار اعلیٰ مقامی سطح پر قائم حکومتوں کے ہاتھوں میں ہو۔۔۔‘‘

بات میں نے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شعر سے شروع کی ہے جس میں شاعر ِ مشرق نے اپنے مخصوص انداز میں اس تلخ اور افسوسناک حقیقت کی نشاندہی کی تھی کہ سیاست یعنی اُمورِ مملکت و حکمرانی کی باگ ڈور جمہور یعنی خلقِ خدا کے درمیان موجود ابلیسوں یعنی شیاطین کے ہاتھوں میں جاچکی ہے اس لئے ابلیس یعنی اصل شیطان اس بات کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا کہ وہ انسانوں کو بہکانے یا غلط راستوں پر چلانے کیلئے خود ہمارے درمیان موجود ہو۔پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اور اسلام میں خدا کی حاکمیت کے علاوہ اور کسی کی بھی حاکمیت کا تصور نہیں۔ ظاہر ہے کہ اپنی حاکمیت قائم کرنے کیلئے خدا خود زمین کے اس حصے پر نہیں اترے گا جسے ہم پاکستان کہتے ہیں۔ یہ کام ہم نے خود امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا افتخار رکھنے کی بنا پر کرنا ہے۔ ہمارے سامنے خدا کے قوانین قرآن حکیم کی صورت میں موجود ہیں۔ خدا نے اپنے کلام میں ہر جرم کی نشاندہی کررکھی ہے اور اسکی سزا کا تعین بھی واضح طور پر کر رکھا ہے۔ جس بات کو ہم نفاذ شریعت کا نام دیتے ہیں وہ احکامات خداوندی اور قوانین الٰہی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔جب تک پاکستان میں ان احکامات اور ان قوانین پر بغیر کسی حیل و حجت کے عمل پیرا ہونے کا نظام نافذ نہیں ہوتا، تب تک ہمارا شمار خدا کے نافرمانوں اور باغیوں میں ہوتا رہے گا۔خدا کی نافرمانی کرکے اور خدا کے باغی بن کر ہم کب تک قہرالٰہی سے محفوظ رہیں گے، اس بارے میں یہاں میں کچھ نہیں کہوں گا لیکن ہمارے سامنے فلاح و بہبود کا اور کوئی راستہ ہے ہی نہیں۔

اگر حکمرانی خدا کی ہو۔۔۔ یعنی مملکت اور معاشرے میں احکاماتِ خداوندی کا احترام عملی شکل میں موجود ہو تو پھر ابلیس جمہور کی امنگوں کے نقیب نہیں بنیں گے۔ یعنی سیاست خودبخود شیاطین کے قبضے سے نکل کر براہ راست جمہور کے ہاتھوں میں آجائیگی۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہ لیا جائے کہ تمام امراء شیاطین کے زمرے میں آتے ہیں۔ جن لوگوں کے اندر نیکی ہو وہ امارت میں بھی قائم رہتی ہے۔ امارت کے سامنے سوالیہ نشان تب اٹھتا ہے جب وہ ’’ حُبِ مال ‘‘ کی کوکھ سے جنم لے اور پھر حُب مال کی راہ پر چلنے کو اپنی عادت بنالے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شعر میں سیاست پر قابض جن شیاطین کا ذکر کیاہے وہ اسی عادت کے اسیر ہوتے ہیں۔

مملکتِ خداداد کو اِن شیاطین کے پنجے اور شکنجے سے نکالنے کیلئے ہمیں ’’ حاکمیتِ خداوندی‘‘ کو یقینی بنانا ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں ہمیں اکیسویں صدی میں آگے بڑھنے کیلئے پیچھے ساتویں صدی میں لوٹنا ہوگا جب مدینہ نام کی بستی میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں دنیا کی پہلی اسلامی ریاست قائم ہورہی تھی۔

یہ درست ہے کہ جس طرح اللہ ایک ہے، اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اللہ نے ایک ہی پیدا کیا۔ مگر ہم اس رجل ِ عظیم کے بتائے ہوئے راستے پر تو چل سکتے ہیںیہ بھی درست ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے رجالِ عظیم دوبارہ پیدا نہیں ہوں گے لیکن ریاست اور معاشرے کو چلانے کے جو راستے انہوں نے اختیار کئے وہ تو ہماری نظروں سے اوجھل نہیں ہوئے۔ دورِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دورِ خلافت )راشدہ(سے ہمیں ایک سبق و اضح طور پر ملتا ہے اور وہ یہ کہ حکمرانی کا حق خاندانوں کی میراث نہیں ہوتا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہاشمی نہیں تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا تعلق خاندانِ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے نہیں تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قبیلے سے نہیں تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنے پیش رو سے صرف دین کا رشتہ تھا۔ان سب کو خلافت ان کی اہلیت کی بنیاد پر عوامی قبولیت کے ذریعے ملی۔

خدا کا خلیفہ وہی شخص قرار پاسکتا ہے جو خدا کی نافرمانی سے بچتا ہواور بچتا رہتا ہو۔ اس کا انتخاب بہرحال خلقِ خدا ہی کرسکتی ہے۔ کیسے ؟ اس سوال کا جواب ہمیں مغرب کی اندھی تقلید کرنے سے نہیں ملے گا۔ مغرب میں اگر حقیقی جمہوریت کہیں ملتی ہے تو وہ امریکہ کے اختیار کردہ نظام میں ملتی ہے۔اگر ہمیں مغرب کی تقلید ہی کرنی ہے تو پھر وہ نظام کیوں نہ اختیار کریں جس میں عوام اپنے حاکم کا انتخاب اسے ایک لمبے آزمائشی عمل سے گزارنے کے بعد براہ راست خود کرتے ہیں ؟

ہمیں آ ہنی ارادے کیساتھ ایک نئے عمرانی معاہدے کی طرف بڑھنا ہوگا۔ 1973ء کا آئین ہمیں رسوائیوں کے سوا اور کچھ نہیں دے گا۔

ذریعہ: روزنامہ نوائے وقت

تبصرہ