نوائے وقت: پاکستان میں مذہبی سیاست کا مستقبل (ڈاکٹر علی اکبر الازہری)

ڈاکٹر علی اکبر الازھری

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اس کی پہچان اور اس کی انفرادیت بھی یہی اسلامی حمیت اور ایمانی جذبہ ہے۔ اسی حمیت اور جذبے کو بعض شخصیات اور جماعتوں نے کئی مرتبہ اقتدار کے حصول کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں بطور خاص وہ مذہبی سیاسی جماعتیں قابل ذکر ہیں جو ملک میں بجا طور پر نفاذِ شریعت کا نعرہ لگاتی رہی ہیں۔ چونکہ شریعت کا نفاذ قوتِ نافذہ کے بغیر ممکن نہیں اس لئے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کو ان جماعتوں نے اپنے منشور اور دستور کا حصہ بنایا تاکہ اقتدار کے ذریعے قوتِ نافذہ حاصل کرکے ملک میں اسلامی قانون کی عملداری کو ممکن بنایا جاسکے۔

ابتدائی طور پر پاکستان میں جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان نے اس نوعیت کی کاوشیں شروع کیں۔ تینوں جماعتوں کو ایک مدت تک قومی ایوانوں میں مناسب نمائندگی بھی ملتی رہی۔ اب ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی فہرست پر غور کیا جائے تو اس میدان میں درجنوں دیگر جماعتیں اور گروپ بھی حصول اقتدار کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ چونکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے ہر شہری انتخابی عمل میں حصہ لے سکتا ہے اس لئے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی یہ لوگ عموماً اپنے اپنے انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں کود پڑتے ہیں اور ان کی اکثریت ایک لاحاصل کوشش اور دوڑ دھوپ میں اپنی توانائیاں ضائع کردیتی ہے۔

حالیہ انتخابات کے نتائج دیکھ کر یہ حوصلہ ہوا ہے کہ پاکستان کے اجتماعی جمہوری شعور نے ایسی تمام منتشر مذہبی سیاسی قوتوں کو گھر بھیج دیا ہے۔ جہاں جہاں اکا دکا لوگ کامیاب ہوسکے ہیں وہاں کے زمینی حقائق مختلف تھے۔ذیل میں ہم ان اسباب اور عوامل کا مختصراً جائزہ لیں گے جو مذہبی سیاسی قوتوں کی واضح شکست کا باعث بنے ہیں۔ تاکہ کھلے دل و دماغ سے ان کا جائزہ لے کر ان کمزوریوں کے علاج کی کوئی سبیل نکالی جاسکے جس کی مجھے موجودہ حالات میں کم امید ہے۔

  1. ان اسباب میں پہلا اور بڑا سبب تو مذہبی فرقہ پرستی اور اختلاف رائے میں شدت اور شخصی انانیت ہے۔ تھوڑا بہت نظریاتی اختلاف تو ہمیشہ سے رہا ہے اور پوری دنیا میں اب بھی موجود ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ پاک و ہند میں اختلاف رائے محض اختلاف رائے نہیں رہا بلکہ کھلی دشمنی کا روپ دھار کر قتل و غارت گری کے خطرناک منظرنامے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ بدقسمتی سے ایسے تمام لوگ اپنی اپنی جگہ پر خود کو حق پرست اور راست فکر خیال کرتے ہیں جبکہ مخالف فریق انکے ہاں کافر، مشرک، گستاخ رسول اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا جاتا ہے۔ اس مذہبی انارکی کے اثرات صرف پاکستانی معاشرے تک محدود نہیں بلکہ افغانستان سے بھارت اور بنگلہ دیش تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر اس شدت مخالفت سے کسی ایک کو بھی فائدہ نہیں پہنچ پایا بلکہ ان فرقوں کی وجہ سے عالم اسلام کی اجتماعی قوت کو زبردست دھچکا لگا ہے۔
  2. پاکستان میں مذہبی سیاست کی ناکامی کا دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ مذہبی جماعتوں کے منشور اور دستور میں عوامی مسائل کے حل سے متعلق کوئی واضح نصب العین نظر نہیں آتا۔ گویا یہ جماعتیں زمینی حقائق سے مکمل طور پر لا تعلق ہیں۔ اول سے آخر تک ان کی ساری کاوشوں کا محور فریق مخالف کو شکست دے کر اسمبلی میں رسائی ہوتا ہے خاص طور پر مذہبی حریف کی شکست ان کی تمام کاوشوں کا محور رہتی ہے۔ جبکہ فی زمانہ معاشی مسائل کے ساتھ خارجہ امور کی نوعیت بہت پیچیدہ ہوچکی ہے۔ اس کے حل کیلئے اعلیٰ معاشی اور سیاسی پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، چونکہ مذہبی قائدین کا اندازِ فکر محدود ہے اس لئے ملکی اور بین الاقوامی مسائل کے حل میں ان کی دانش سے لوگ قطعاً پُرامید نہیں۔ اس کی بڑی وجہ ان جماعتوں اور قیادتوں کا ماضی ہے۔
  3. مذہبی سیاست کی ناکامی کا تیسرا سبب ان جماعتوں کے ہاں واضح مقصدیت کا فقدان ہے۔ جہاں کہیں جماعت اسلامی جیسی تنظیمی قیادت کے ہاں عوامی مسائل یا قومی نصب العین کی بات کی بھی جاتی ہے تو وہ ایک مخصوص نقطہ نظر سے ہوتی ہے۔ ان کے ہاں بھی ملک کی ترقی یا ملک کو درپیش چیلنجز کے حل کے لئے کسی واضح لائحہ عمل کا فقدان رہا ہے۔

جمعیت علماءاسلام ہو یا جمعیت علماءپاکستان یا اب منظر عام پر آنے والے کچھ متعصب علاقائی مذہبی اور مسلکی گروہ، ان کے ہاں غلبہ حاصل کرکے اپنی مرضی کا ”اسلامی انقلاب“ لانا ہی مقصود و مطلوب رہا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ جو لوگ اختیار کے بغیر ایک دوسرے کو جینے کا حق نہیں دیتے، وہ جب اقتدار میں آئیں گے تو فریق مخالف کی زندگی کس قدر اجیرن ہوجائے گی؟ تحریک طالبان پاکستان نے سوات اور دوسرے سرحدی علاقوں میں یہی کچھ کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے اندر ایک خوف بیٹھ گیا ہے کہ خدانخواستہ اس طرح کا مذہبی ذہن ایوانوں میں پہنچ گیا تو یہاں سوائے خون خرابوں کے اور کوئی کام نہیں ہوسکے گا۔اب رہ گیا وہ مینڈیٹ جو جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے محدود نشستوں پر حاصل کیا ہے۔ یہ ساری نشستیں انہیں کے پی کے اور بلوچستان سے حاصل ہوئی ہیں اور وہاں صورتحال پورے ملک سے قطعاً مختلف ہے۔ ان کمزوریوں کو ختم کرکے بڑے پیمانے پر مذہبی اتحاد بن جائے تو نتائج یقینا بہتر ہوسکتے ہیں مگر قاضی حسین احمد اور شاہ احمد نورانی کی رحلت سے یہ امید بھی دم توڑ رہی ہے۔

تبصرہ