قومی مشکلات کا حل : صالح قیادت اور نیا نظام

تحریر : محمد نعیم رضا (ویانا۔آسٹریا)

عزیز قارئین !

سنجیدہ فکر دانشواران اور عام پاکستانی سے یہ جملے اکثر سننے پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں کہ :

ہمیں ایک اہل قیادت کی ضرورت ہے۔

اللہ کرے کوئی خمینی آجائے۔

اللہ کسی مخلص راہنما کو بھیج دے۔

موجودہ بحرانوں میں ‌پاکستان کو دوسرا قائد اعظم درکار ہے۔ وغیرہ وغیرہ

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ہماری قوم کو ایک مخلص، اہل، اعلی تعلیم یافتہ، باصلاحیت، انقلابی افکار کی حامل اور محب وطن قیادت کی اشد ضرورت ہے۔ یقینا ہمارے وطن میں ایسی بہت سی شخصیات ہوں گی۔ جن میں سے ایک نمایاں شخصیت ڈاکٹر طاہر القادری ہیں جنہوں نے اپنی بےشمار علمی و فکری، تنظیمی، فلاحی صلاحیتوں کا لوہا عالمی سطح پر منوایا ہے۔

  • وہ 1 ہزار سے زائد اردو، عربی، انگریزی کتب کے مصنف ہیں جن میں سے تقریبا 500 کتب چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں۔ www.minhajbooks.com
  • وہ 6 ہزار سے زائد موضوعات پر لیکچرز ریکارڈ کروا کے عظیم علمی ذخیرہ کی صورت میں امت کو دے چکے ہیں۔ www.deenislam.com
  • منہاج القرآن تنظیم پاکستان کے گوشے گوشے کے علاوہ دنیا کے 100 ممالک میں اپنا نیٹ ورک رکھتی ہے اور اقوام متحدہ سے غیرسرکاری تنظیمات میں سب سے بڑی تنظیم کا درجہ پا چکی ہے۔
  • پاکستان میں 1 انٹرنیشنل چارٹرڈ یونیورسٹی کے علاوہ 600 سکول و کالج اور آئی ٹی کالجز کے ذریعے قوم کو تعلیم دی جار ہی ہے۔
  • دنیا بھر میں 40 سے زائد اسلامک سنٹر جہاں غیرممالک میں پاکستانی نسلیں ایمان و پاکستانیت کا شعور حاصل کر رہی ہیں۔
  • دنیا بھر میں اسلام کے چہرے پر لگائے جانے والے دہشت گردی کے بدنما داغ کو اپنے تاریخی فتوی www.fatwaonterrorism.com کے ذریعے صاف کر کے اسلام کو دنیا میں امن و محبت کے دین کے طور پر متعارف کروانے کا سہرا ڈاکٹر طاہر القادری کے سر ہے۔
  • پاکستانی قوم کو 1992 میں سود سے پاک بینکاری کا قابلِ عمل معاشی خاکہ دے چکے ہیں جو آج تک چیلنج نہیں‌کیا جاسکا۔
  • منہاج ویلفئیر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام لاہور میں 500 یتیم و بےسہار بچوں کے لیے پناہ گاہ کا منصوبہ "آغوش" مکمل ہوچکا۔
  • 300 یتیم و مستحق بچیوں کے لیے پناہ گاہ "بیت الزاہرا" زیر تعمیر۔
  • ملک بھر میں‌ 200ڈسپنسریز، 50 ایمبولینس سروسز، 40 سے زائد بلڈ بنکس اور قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کے لیے امدادی بستیاں، عارضی سکولز کے بےشمار پراجیکٹس
  • ہر سال 100 کے لگ بھگ یتیم و بےسہارا غریب خاندانوں کے بچے بچیوں کی اجتماعی شادیاں کروائی جاتی ہیں۔ www.welfare.org.pk

مزید تفصیلات کے لیے www.minhaj.org کا وزٹ مفید ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ :

قوم کی خدمت کرنے والے اگر ایسے با صلاحیت، مخلص، محب وطن لوگ قیادت کے حقدار نہیں تو پھر کون ہوسکتا ہے ؟

دراصل مسئلہ ہمارے ہاں رائج یہ نظامِ انتخابات اور نظامِ سیاست ہے۔ جو کسی بھی مخلص اور لائق راہنما کے آگے آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

یہ انتخابی نظام جس میں سوائے 200 خاندانوں کے ڈیڑھ دو ہزار افراد جن میں اکثریت کرپٹ، خاندانی جاگیردار، حلال و حرام سے بلاامتیاز سرمایہ دار، قاتل، غنڈے، رسہ گیر اور کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے کارکن و سرپرست اور جعلی ڈگری ہولڈر جیسے بددیانت افراد ہی اسمبلی میں پہنچتے ہیں۔

لیڈر چاہے کوئی بھی ہو، جماعت کوئی بھی ہو، پارٹی کوئی بھی ہو، منشور کچھ بھی ہو، نعرے خواہ جیسے بھی ہوں۔ جب اسمبلی کی اکثریت انہی کرپٹ و بدقماش اور نااہل افراد پر مشتمل ہوگی تو بڑے سے بڑا لیڈر بھی انہی کے ہاتھوں بلیک میل ہوگا، ایماندار سے ایماندار شخص کو بھی اسی کالک میں ہاتھ کالے کرنے پڑتے ہیں اور یہ نظام ایک گھن کی طرح ہر بااصول و اہل شخص کو پیس کے رکھ دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج تک :

  • اس نظام نے 18 کروڑ عوام کو 200 خاندانوں کا غلام بنا کے رکھ دیا ہے۔
  • اس نظام نے 65 سال سے عوام کو سوائے بھوک، غربت، مایوسی، لوڈشیڈنگ، بےروزگاری، خود کشیوں، بےراہ روی اور دہشت گردی کے اور کچھ نہیں دیا۔
  • یہی نظام انتخاب ملک کو تباہی کے دہانے لے آیا ہے۔

موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں اس انتخابی نظام کو تبدیل کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ یہ کام پلک جھپکتے میں نہیں ہوگا۔ اس کے لیے اہل، باکردار، ایماندار، اعلی تعلیم یافتہ، صاف ستھرے دماغ اور شفاف ماضی رکھنے والے چند درجن افراد پر مشتمل ایک ٹیم درکار ہے جس میں ماہرِین قانون، ماہرینِ تعلیم، ماہرینِ زراعت، ماہرین بینکاری، ماہرینِ دفاع، ماہرین امور خارجہ وغیرہ الغرض مختلف شعبہ حیات سے ماہرین کی ایک ٹیم بنا کر ایک عبوری حکومت قائم کردی جائے۔

یہ ٹیم 3 یا 4 یا 5 سال تک کے لیے بنائی جائے جس کے ذمے:

  1. سب سے پہلے "بےلاگ احتساب"
  2. پھر نئے انتخابی نظام سے متعلق میڈیا کے ذریعے عوام میں شعور
  3. پھر نئے انتخابی نظام کے نفاذ کے تحت انتخابات کروانے کا عمل ہو ۔

موجودہ کینسر زدہ سیاست کو اگر ملک سے کاٹ کر الگ نہ کیا گیا تو یہ ناسور پورے پاکستان کو ہڑپ کرجائے گا۔ اور ہم منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔

اس لیے ہر پاکستانی پر لازم ہے کہ اس ظالمانہ نظام کو سمندر برد کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

نظامِ انتخاب کو بدلنے اور ایک ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کا مطالبہ :

ڈاکٹر طاہر القادری ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، سید زید حامد، سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد ، کالم نویس قیوم نظامی، کالم نویس آفتاب اقبال ، حسن نثار ، جاوید چودھری اور دیگر بہت سے دانشوران کرچکے ہیں۔

نظام میں تبدیلی کے اسی مطالبہ کو عملی شکل میں ڈھالنے کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری نے 23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان پر پاکستانی عوام کو اٹھ کھڑا ہونے کے لیے کال دے دی ہے۔

امید کی جاتی ہے کہ عوام ان 200 خاندانوں کی غلامی سے آزادی پانے اور ملک کو عظمت و وقار کی راہ پر چلانے کے لیے ڈاکٹر طاہرالقادری کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پرامن تبدیلی کے لیے انکے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے

بقول علامہ اقبال

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

تبصرہ