Jamhuriat kahan he? Part - 1 (Daily Nawa-i-Waqt)

آزادی کے وقت چار بڑے بڑے غیر متوازن صوبے اور بلوچستان کا علاقہ پاکستان کے حصے میں آیا چونکہ ان صوبوں کو انگریز حاکموں نے اپنی حاکمانہ ضروریات کے تحت لسانی بنیادوں پر بنایا ہوا تھا لہٰذا ان کی ترتیب میں جمہوری اقدار کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ اس وقت پاکستان دو حصوں میں منقسم تھا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان۔ مشرقی پاکستان ایک صوبہ تھا مگر اس کی آبادی پاکستان کی کل آبادی سے زیادہ( 54 فیصد ) تھی۔

دوسری طرف مغربی پاکستان تین صوبوں اور چھ دیسی ریاستوں پر مشتمل تھا جن میں بھی آپس میں آبادی کا کوئی توازن قائم نہیں تھا، اس کے ایک صوبہ پنجاب کی آبادی مغربی پاکستان کی کل آبادی سے زیادہ (58 فیصد) تھی۔ اس طرح آزادی کے وقت پاکستان کا سیاسی نظام مکمل طور پر غیر جمہوری بنیادوں پر استوار تھا۔ ہم نے آزادی حاصل کرنے کے بعد انگریز حاکموں سے ورثہ میں ملے لسانی بنیادوں پر قائم بڑے بڑے، بے ہنگم، غیر متوازن اور غیر متناسب صوبوں کی تشکیل نو کرکے انہیں جمہوری نظام میں ڈھالنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی اور غیر متوازن صوبوں کو پچھلے 65سال سے جوں کا توں قائم رکھا ہوا ہے جس کی بناءپر ہمارے سیاسی نظام میں آج تک توازن قائم نہیں ہو سکا۔ اسکے برعکس آزادی کے فوراً بعد ہندوستان نے جمہوری نظام کے احیاءاور سیاسی استحکام حاصل کرنے کی خاطر اپنے آٹھ صوبوں کو جمہوری تقاضوں کے مطابق ڈھال لیا اور ان کی تعداد بڑھا کر 47 کر دی۔

اصل میں آزادی حاصل کرنے کے چند سال کے اندر اندر ہی حقیقی، مخلص، بے لوث اور تجربہ کار سیاستدان جنہوں نے پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں ایک ایک کرکے ختم ہو گئے یا ختم کر دیئے گئے اور ان کے ساتھ ہی پاکستان میں جمہوری اقتدار کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔

1951ءمیں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی غیر قانونی برطرفی کے بعد بے لوث اور تجربہ کار سیاسی قیادت کی جگہ نوکر شاہی کی آمریت پھر فوجی آمریت اور اس کے بعد ابن الوقت سیاسی طالع آزماؤں کی سول آمریت نے لے لی، جس سے ملک پر حقیقی سیاستدانوں کی جگہ فوجیوں، وڈیروں، چودھریوں، سرداروں اور سرمایہ داروں کا تسلط قائم ہو گیا۔

حقیقت میں 1951ءکے بعد سے آج تک ہمارے ملک پر مسلسل آمروں کا راج رہا ہے اور یہاں نوکر شاہی، فوجی اور سول آمریت نے قبضہ کر رکھا ہے۔ لہٰذا آپ نے دیکھا کہ غلام محمد، اسکندر مرزا، ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاءالحق، بے نظیر (دو دفعہ)، نواز شریف (دو دفعہ) اور پرویز مشرف جو بھی کرسی پر بیٹھا اس نے خود سے کبھی کرسی نہیں چھوڑی اور موجودہ حکمراں بھی خود سے جانے کو تیار نہیں ہیں۔ جمہوری اور آمرانہ نظاموں کا بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ جمہور کے حقیقی نمائندے ہر دم اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ جبکہ آمر جب ایک دفعہ کرسی پر بیٹھ جاتا ہے تو پھر وہ خود سے کبھی کرسی نہیں چھوڑتا اسے طاقت کے زور پر ہی ہٹانا پڑتا ہے۔

خیال رہے کہ نوکر شاہی، فوجی اور سول آمریتوں میں سب سے زیادہ خطرناک اور ضرر رساں سول آمریت ہی ہوتی ہے کیونکہ یہ لوگ جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر بدترین آمریت میں مبتلا رہتے ہیں۔ موجودہ نظام بھی مکمل طور پر سول آمریتی نظام ہے اور اس کا جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ موجودہ دور میں حقیقی اور فعال حسب اختلاف جو جمہوریت کی روح ہے سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور اگر کچھ ہے بھی تو وہ محض فرینڈلی ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ 1955ءمیں مغربی پاکستان کی غیر جمہوری طاقتوں نے مشرقی پاکستان سے برابری قائم کرنے کی غرض سے مغربی پاکستان کے تمام یونٹوں کو یکجا کرکے ون یونٹ قائم کر دیا تھا۔ اس طرح پاکستان میں تعداد میں صرف دو اتنے بڑے بڑے صوبے قائم کر دیئے گئے تھے جس کی مثال جمہوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی اور جو جمہوری نظام سے کھلا انحراف تھا۔

راقم الحروف نے 22اکتوبر 1955ءکو اس وقت کے وزیر اعظم چودھری محمد علی کو خط کے ذریعے متنبہ کیا تھا کہ:۔

-1دنیا میں محض دو یونٹوں (صوبوں) کی فیڈریشن کبھی قائم نہیں ہوئی اور نہ ہی ہو سکتی ہے اس لئے کہ اس میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہوتی جو جمہوریت کی روح ہے۔ ایسی فیڈریشن جلد یا بدیر دو لخت ہو جائے گی۔

-2جمہوریت کیلئے لازم ہے کہ اس کے صوبے چھوٹے چھوٹے اور تعداد میں زیادہ ہوں اور ان کا آپس میں آبادی کے لحاظ سے توازن قائم ہو۔ لہٰذا مغربی پاکستان میں ون یونٹ کے قیام سے پہلے کی 9 یونٹیں حدود کی متناسب ردّ و بدل کرکے، صوبوں کی حیثیت میں قائم رہنے دی جائیں اور مشرقی پاکستان میں ایک صوبہ کی جگہ پانچ وائبل صوبے (سلہٹ، ڈھاکہ، چٹاگانگ، کھلنا اور راجشاہی) بنا دیئے جائیں۔ اس طرح نظام میں توازن پیدا ہو جانے کی بناءپر جمہوری تقاضے پورے ہو جائیں گے اور ملک میں حقیقی جمہوریت کی بنیاد رکھ کر ہمیشہ کیلئے سیاسی استحکام قائم ہو جائےگا مگر 1970ءمیں الیکشن جیت کر آنےولے نام نہاد جمہوریت پسند سویلین آمروں نے ذاتی مفاد کی خاطر ملکی نظام کو جمہوری طرز پر متوازن بنانے سے گریز کیا جس کی بناءپر مرکز گریز طاقتوں نے ملک کو دو لخت کر دیا۔

اگر مشرقی پاکستان میں پانچ صوبے بنا دیئے جاتے تو ملک کسی بھی حالت میں دو لخت نہیں ہو سکتا تھا، مگر نام نہاد رہنماؤں نے ہوس اقتدار کی خاطر جمہوری تقاضوں کی کھلی خلاف ورزی کی جس کی سزا پوری قوم آج بھگت رہی ہے۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد فوجی جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ کو توڑ دیا اور پنجاب، سندھ، سرحد کے صوبے بنانے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی چاروں ریاستوں کے ساتھ کوئٹہ کے علاقہ کو یکجا کرکے، تاریخی حقائق کے برخلاف، ایک لق و دق صوبہ بلوچستان کے نام سے قائم کر دیا جس سے پاکستان میں دو بارہ چار غیر متوازن صوبے قائم ہو گئے مگر یہ خیال نہیں کیا گیا کہ ہزاروں سال کی تاریخ میںبلوچستان کبھی بھی واحد صوبہ نہیں رہا اور یہ کہ اس طرح ہمارے سیاسی نظام کا توازن بالکل ہی بگڑ جائےگا چنانچہ اس تبدیلی کی بناءپر ہمارے صوبے اس حد تک غیر متوازن ہو گئے کہ جس کی مثال دنیا کے کسی جمہوری نظام میں موجود نہیں (پنجاب کی آبادی 10کروڑ اور بلوچستان کی آبادی 88لاکھ)۔ ایسا غیر متناسب نظام جمہوریت کی مکمل نفی اور آمریت کو مسلط کرتا ہے۔

ہم جمہوریت جمہوریت کی آوازیں لگاتے رہتے ہیں مگر جمہوریت ہے کہاں؟ پاکستان میں جمہوری دور صرف چار سال پر محیط رہا جو 1951ءمیں نوکر شاہی آمر غلام محمد کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی غیر قانونی برطرفی پر ختم ہو گیا۔ اس کے بعد سے ہم نے ابھی تک جمہوریت کی بنیاد ہی نہیں رکھی اور نہ ہی ہم حقیقی جمہوری نظام سے واقف ہیں کیونکہ ہمارے نام نہاد سیاستدان، صحافی، سول سوسائٹی، وکلائ، میڈیا، تجزیہ کار اور عوام سب ہی نے (جو پچھلے 60سال سے مسلسل نوکر شاہی، فوجی اور سول آمریتوں ہی کا نظام دیکھتے چلے آئے ہیں) حقیقی جمہوریت کبھی دیکھی ہی نہیں، اس لیے وہ موجودہ سول آمریت کو ہی جمہوریت سمجھ بیٹھے ہیں جس کے تباہ کن نتائج آج ساری قوم بھگت رہی ہے۔ (جاری)

Comments